ڈاکٹر محمد احمد

 

بین المذاہب مکالمہ ؍ اشتراک عمل

فکرو عمل کے چند پہلو

 

یہ حقیقت اپنی جگہ مسلم ہے کہ اہلِ حق تاریخ انسانی کے ہر دور میں نت نئے چیلنجز سے نبردآزما رہے ہیں۔ ہر دورکے چیلنجز نے اپنے اپنے دور میں اہل حق کو پسپا کرنے اور انہیں نیست و نابود کرنے کی ممکنہ کوششیں کی ہیں۔ ان چیلنجز کا سامنا انبیائے کرام علیہم السلام نے بھی کیاہے اور ان کے بعد ان کے مخلص پیروکار انفرادی و اجتماعی ہردوسطح پر ان سے دوچار ہوتے رہے ہیں۔ نزول قرآن مجید کے وقت بھی نبی آخر حضرت محمدؐ اور آپؐ کے متبعین کو چہارطرفہ چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا۔ ہر دور میں اہل حق نے ان چیلنجز کاسامنا نہایت حکمت اور دلیری کے ساتھ کیا۔ نزول قرآن کے وقت کے چیلنجز کا مطالعہ کیاجائے تو یہ معلوم ہوتاہے کہ ایک طرف مشرکین مکہ تھے تو دوسری طرف اہل کتاب، اور ہر ایک دین براہیمی اور دین حنیف کا سچا پیرو ہونے کے دعوے دار تھے۔ اور نبی آخرؐ کی رسالت کامنکر ہر ایک کے دعوے کے پس پردہ اس کے اپنے دلائل تھے، سازشیں تھیں، مکرو فریب تھا، دھونس و دھاندلی تھی ، ظلم و عدوان تھا، لیکن یہ ساری چالیں اور اہلِ حق کو درپیش چیلنجز بتدریج ہوا ہوتے گئے اور ایک وقت وہ آیا جب اہل حق کو غلبہ نصیب ہوا۔ اور یہ غلبہ ایک وسیع کرۂ ارضی پر پھیلتا چلاگیا۔ اس وسیع غلبہ کے باوجود ایسا نہیں ہواکہ اہل حق کو چیلنجز سے چھٹکارا مل گیا۔ بلکہ نت نئے چیلنجز نئے نئے لباس میںآتے رہے۔ لیکن اہل حق نے ہار نہیں مانی۔ اپنی دانائی، حکمت و بصیرت اور خالق حقیقی کی نصرت سے وہ ان کا مقابلہ کرتے رہے۔ پہلے ایسا تھا کہ اہل حق ایک مخصوص خطہ میں نبردآزما تھے۔ جب ان کاغلبہ وسیع ہوا اور ان کی آواز چہاردانگ عالم میں گونجی تو اسی لحاظ سے ان کے استیلاء کو بیخ و بن سے اکھاڑ پھینکنے کی سعی و جہد بھی وسیع سے وسیع ترہوتی گئی۔ کبھی استشراق کے ذریعہ قرآن، اسلام، پیغمبراسلام اور تاریخ اسلام کو نشانہ بنایاگیا، کبھی مختلف نظریات اور ازموں کی داغ بیل ڈالی گئی، کبھی صلیبیت اور صہیونیت براہ راست مدمقابل ہوئی، جنگیں تھوپی گئیں، نفرت و عداوت کے بیچ بوئے گئے، کبھی گفت و شنید کی میز سجائی گئی ۔ اور اس طرح اہل حق کے سامنے چیلنجز کاایک لامتناہی سلسلہ ہے جو آج بھی جاری ہے اور ہمیشہ جاری رہے گا۔ اور اسی کے ساتھ اہل حق بھی ہر دور میں ان چیلنجز سے نبردآزما رہے ہیں اور آج بھی ہیں۔ اہل حق کا یہ شیوہ کبھی نہیں رہاکہ چیلنجز سے منھ موڑکر شترمرغ کی مانند اپنا سر ریت میں چھپادیں اور سمجھ لیں کہ بلاٹل گئی۔ بلکہ اس کے برعکس اہل حق ہر دور میں اپنی مومنانہ فراست اور اللہ کی نصرت کے بھروسے نہایت دلیری کے ساتھ ہر طرح کے چیلنجز سے برسرپیکار رہے ہیں۔ انھوںنے اپنے حوصلوں سے بادمخالف کا رخ پھیر دیا ہے، تلاطم خیز دریا کے سیل رواں کو روند ڈالا ہے۔ دریا، سمندر اور پہاڑ ان کی راہ میں روڑے نہ اٹکاسکے، انہوںنے ہر طرح کے چیلنجز کو اپنے حق میں موڑلیاہے، شر میں خیر کے پہلو نکال لئے ہیں کہ یہی اہل حق کی شان ہے۔

موجودہ دور میں بھی اہل حق چیلنجز کے لامتناہی سلسلے سے دوچار ہیں۔ دوسری طرف قدآور قیادت کا فقدان ہے، علمی و فکری زوال کے نتیجہ میں وہ انتشار کا شکار ہیں۔ بعض خودساختہ روایات کے اسیر ہیں اور ان ہی کو حرزجاں بنائے ہوئے ہیں کہ ان کے نزدیک وہی عین حق ہے۔ عالمی سطح پر نگاہ ڈالیں تو اندازہ ہوگاکہ اہل حق دنیا کی سب سے بڑی عددی قوت ہیں، لیکن اس کے باوجود ان پر عرصۂ حیات تنگ کیاجارہا ہے، مختلف بہانوں سے چہارطرفہ یلغار کی جارہی ہے، کہیں تو منظم سازش کے تحت ان کی نسل کشی کی جارہی ہے اور انہیں اپنے وضع کردہ نظام حیات کو اپنانے پر مجبور کیاجارہا ہے اور یہ سب کچھ حکومتی سطح پر ریاستی دہشت گردی کی بیّن مثال ہےاوران سب کے ساتھ ساتھ اہل حق کے لئے مکالمہ کی میز بھی سجائی جارہی ہے کہ وہی قاتل بھی ہے اور وہی منصف بھی۔ بلاشبہ اہلِ حق کا یہ عظیم گروہ ان فریبی بازی گروں کے مکرو فریب سے بخوبی واقف ہے۔ اور اگر وہ واقف نہیں ہے تو اسے واقف کرایا جانا چاہئے۔ کہ یہ وقت نہ اس مکالمہ کی میز سے علاحدگی اور اظہار برأت کاہے اور نہ خود کو حالات کے حوالے کردینے کا۔ بلکہ یہ وقت جس سے خدا کی عطا کردہ بصیرت کے ذریعہ اس مکالمہ کا رخ اپنی طرف موڑلینے کے لئے بھرپور جدوجہد کی جائے۔ اس کے لئے ضرورت ہے کہ ہم میں ایسے افراد یقینی طورپر ہونے چاہئیں جو باطل کی دسیسہ کاریوں سے واقف ہوں، جن کی عالمی منظرنامے پر گہری نظر ہو، جو ہر لمحہ بدلتے حالات سے واقف ہوں اور ابطل کے کمزور پہلوئوں پر کاری ضرب لگانے کی صلاحیت رکھتے ہوں، زمانہ کی نزاکتوں کے مزاج کو سمجھتے ہوں اور اس کی روشنی میں اسلام کی سچی عملی تعبیر کے مکمل خاکہ پر گہری بصیرت کے حامل ہوں۔ ان نازک حالات میں جب کہ اہل حق علمی و فکری زوال سے دوچار ہیں، آپسی اختلافات نے انہیں کمزور کردیا ہے، ان سب سے نبردآزما ئی کے لئے اہل حق کے پاس آج بھی وہی نسخۂ کیمیا موجود ہے اور قیامت تک رہے گا، جو ڈیڑھ ہزار سال قبل تھا۔ اور جس کی روشنی میں اہل حق نے بڑے بڑے معرکے سر کئے تھے۔ یہ نسخۂ کیمیا قرآن مجید کی شکل میں زمان ومکان سے پرے، ہر دور اور ہر جگہ مسائل حیات کے حل کے لئے موجود ہے۔ اسی کے ساتھ نبی آخر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوۂ حسنہ ان مسائل کے تدارک میں اہم کردار ادا کرتا رہے گا۔ اہل حق کے لئے یہی دوچشمہ صافی کافی ہیں، جن کی روشنی میں یہ جہاں اپنے علمی و فکری ارتقاء کی جانب پھر سے گامزن ہوکر احقاق حق بھی کریںگے اور عالمی قیادت کا منصب پھر سے حاصل کرنے میں کامیاب ہوسکںگے۔ وہیں آپسی اختلاف و انتشار کی فضا بھی ختم ہوسکے گی، جس نے انہیں وقتی طور سے ’’وھن‘ میں مبتلا کردیا ہے۔

موجودہ زمانہ میں اہل حق کو جتنے بھی چیلنجز درپیش ہیں، ان سب سے نبردآزما ہونے کے لئے قرآن ہماری کیا رہنمائی کرتا ہے اور اسوۂ رسولؐ سے کیا مستنبط ہوتاہے، یہ سب کچھ جاننے کے لئے ہمیں قرآن سے رجوع کرنا ہوگا اور آپؐ کے اسوۂ حسنہ پر نگاہ ڈالنی ہوگی۔ اس مضمون میں اہلِ حق کو درپیش صرف ایک چیلنج پر گفتگو پیش کی جائے گی اور وہ چیلنج ہے ’’بین المذاہب مکالمہ یا اشتراک عمل‘‘۔  اس سلسلے میں ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ اس سلسلے میں قرآنی ہدایات کیا ہیں، اسوۂ رسول سے ہمیں کیا روشنی ملتی ہے اور فی زمانہ ان کی تطبیق کی کیا صورت ہوسکتی ہے؟

نزولِ قرآن کے وقت جو لوگ نبی آخر حضرت محمدؐ کی مخالفت پر کمربستہ تھے ان کی اکثریت لاعلمی کی بناپر ایسا کررہی تھی۔ چنانچہ قرآن نے اس جانب متعدد مقامات پر اشارہ کیاہے۔ ایک جگہ فرمایا:

 وَمِنَ النَّاسِ مَن یُجَادِلُ فِیْ اللَّہِ بِغَیْرِ عِلْمٍ وَیَتَّبِعُ کُلَّ شَیْطَانٍ مَّرِیْدٍ (الحج:۳)

’’بعض لوگ ایسے ہیں جو علم کے بغیر اللہ کے بارے میں بحثیں کرتے ہیںاور ہر شیطان سرکش کی پیروی کرنے لگتے ہیں۔‘‘

اسی سورہ میں آگے چل کر فرمایا:

 وَمِنَ النَّاسِ مَن یُجَادِلُ فِیْ اللَّہِ بِغَیرِ عِلْمٍ وَلَا ہُدًی وَلَا کِتَابٍ مُّنِیْرٍoثَانِیَ عِطْفِہِ لِیُضِلَّ عَن سَبِیْلِ اللَّہِ                   (الحج :۸۔۹)

’’بعض اور لوگ ایسے ہیں جو کسی علم اور ہدایت اور روشنی بخشنے والی کتاب کے بغیر گردن اکڑائے ہوئے خدا کے بارے میں جھگڑتے ہیں۔ تاکہ لوگوں کو راہ خدا سے بھٹکادیں۔‘‘

 سورہ لقمان آیت ۲۱ میں اسی مفہوم کا اعادہ ان الفاظ میں کیا : وَمِنَ النَّاسِ مَن یُجَادِلُ فِیْ اللَّہِ بِغَیْرِ عِلْمٍ وَلَا ہُدًی وَلَا کِتَابٍ مُّنِیْرٍ۔ یعنی انسانوں میں سے کچھ لوگ ہیں جو اللہ کے بارے میں جھگڑتے ہیں بغیراس کے کہ ان کے پاس کوئی علم ہو یا ہدایت یا روشنی دکھانے والی کتاب اور جب ان سے کہاجاتاہے کہ پیروی کرو اس چیز کی جو اللہ نے نازل کی ہے تو کہتے ہیں کہ ہم تو اس چیز کی پیروی کریںگے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا۔ یہ وہ لوگ تھے جو توحید سے لاعلم تھے، اللہ تعالیٰ کے بارے میں غلط اور مشرکانہ تصورات رکھتے تھے اور اسی کو وہ دین براہیمی سمجھ کر اس سے چمٹے ہوئے تھے۔ ایسے لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے نبی اکرمؐ کی زبان مبارک سے یہ کہلوایاگیا :

 اتجَادِلُونَنِیْ فِیْ أَسْمَاء  سَمَّیْْتُمُوہَا أَنتُمْ وَآبَآؤکُم مَّا نَزَّلَ اللّہُ بِہَا مِن سُلْطَانٍ  (الاعراف:۷۱)

’’کیا تم مجھ سے ان ناموں پر جھگڑتے ہو جو تم نے اور تمہارے باپ دادا نے رکھ لئے ہیں، جن کے لئے اللہ نے کوئی سند نازل نہیں کی؟ تم لوگ اپنے من گھڑت دیوی دیوتائوں کو اللہ واحد کے بالمقابل پیش کرتے ہو۔ اس کی تمہارے پاس کوئی دلیل نہیں ہے۔ تمہارے آبائو اجداد بھی اسی گمراہی میں مبتلا تھے جس میں تم آج مبتلا ہو۔‘‘

یہ مخالفین حق نبیؐ کو ساحر اور مجنوں بھی کہا کرتے تھے جیسے قرآن نے نقل کیاہے اور اس کا جواب دیا ہے کہ عقل و خرد کی بات کرنے والا، آفاق و انفس کے دلائل سے لیس نبی پر یہ الزامات کیسے درست ہوسکتے ہیں جس کی عمر کا بیشتر حصہ امین و صادق کی حیثیت سے مسلّم ہے۔  یہ نبی برحق ہے اور اس پر جو کلام اتارا جارہا ہے وہ اس کااپنا کلام نہیں بلکہ خالق ارض و سماوات کا کلام ہے۔

نبیؐ کا سابقہ مشرکین کے علاوہ اہل کتاب سے بھی پڑا۔ ان سے اس بات کی توقع تھی کہ وہ چونکہ اہلِ کتاب ہیں، گزشتہ انبیاء و رسل پر ایمان رکھتے ہیں، وحی، نبوت و رسالت اور اس کے پیغام سے واقف ہیں اور نبی آخر موعود کے منتظر بھی ہیں، وہ اس آخری نبی کا والہانہ استقبال کریںگے، لیکن انھوںنے بھی مخالفت میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ ان اہل کتاب کی ریشہ دوانیوں اور مخالفتوں کا بھی ذکر قرآن نے جابہ جا کیا ہے اور نہایت تفصیل سے ان کی قلعی کھولی ہے۔ ان کے اپنے انبیاء ہے، جن پر وہ ایمان کا دعویٰ کرتے تھے، مجادلہ، مباحثہ اور ہٹ دھرمی کی داستان بیان کی ہے اور یہ واضح کیاہے کہ دین براہیمی جن کی پیروی کاتم دعویٰ کررہے ہو وہ وہ نہیں ہے جس پر تم نے یہودیت و نصرانیت کی عمارت کھڑی کررکھی ہے۔ بلکہ وہ تو حنیفیت کے علمبردارتھے، ان کی تعلیمات تم لوگوں نے فراموش کردیں۔ اب یہ نبی جس کا تم سے وعدہ کیاگیا تھا، وہ تمہارے درمیان آگیا ہے۔ دین براہیمی کی گم کردہ راہیں وہی تمہیں بتائے گا۔ اس ضمن میں جابہ جا اہل کتاب سے بھی خطاب کیاگیا ہے۔ اور نبیؐ کو ان کے عزائم سے بھی باخبر کیاگیا ہے۔

اہل کتاب کو خطاب کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

یَا أَہْلَ الْکِتَابِ لِمَ تَلْبِسُونَ الْحَقَّ بِالْبَاطِلِ وَتَکْتُمُونَ الْحَقَّ وَأَنتُمْ تَعْلَمُونَ                  (آل عمران:۷۱)

’’اے اہل کتاب! کیوں حق کو باطل کارنگ چڑھاکر مشتبہ بناتے ہو؟ اور کیوں جانتے بوجھتے حق کو چھپاتے ہو؟‘‘

اس آیت سے متصل آیت میں اہلِ کتاب کے ایک گروہ کی دنائت کاتذکرہ ان الفاظ میں کرتا ہے:

 وَقَالَت طَّآئِفَۃٌ مِّنْ أَہْلِ الْکِتَابِ آمِنُواْ بِالَّذِیَ أُنزِلَ عَلَی الَّذِیْنَ آمَنُواْ وَجْہَ النَّہَارِ وَاکْفُرُواْ آخِرَہُ لَعَلَّہُمْ یَرْجِعُونَ  (آل عمران:۷۲)

’’اہل کتاب میں سے ایک گروہ کہتاہے کہ اس نبی کو ماننے والوں پر جو کچھ نازل ہواہے اس پر صبح ایمان لائو اور شام کو اس سے انکار کردو۔ شایداس ترکیب سے یہ لوگ اپنے ایمان سے پھرجائیں۔‘‘

سورہ بقرہ میں فرمایا:

مَّا یَوَدُّ الَّذِیْنَ کَفَرُواْ مِنْ أَہْلِ الْکِتَابِ وَلاَ الْمُشْرِکِیْنَ أَن یُنَزَّلَ عَلَیْْکُم مِّنْ خَیْرٍ مِّن رَّبِّکُمْ                                                                      (البقرہ: ۱۰۵)

’’یعنی یہ لوگ جنھوںنے دعوت حق کو قبول کرنے سے انکارکردیا ہے،خواہ اہل کتاب میں سے ہوں یا مشرک ہوں، ہرگز یہ پسند نہیں کرتے کہ تمہارے رب کی طرف سے تم پر کوئی بھلائی نازل ہو۔‘‘

مزید آگے فرمایا:

وَدَّ کَثِیْرٌ مِّنْ أَہْلِ الْکِتَابِ لَوْ یَرُدُّونَکُم مِّن بَعْدِ إِیْمَانِکُمْ کُفَّاراً حَسَداً مِّنْ عِندِ أَنفُسِہِم مِّن بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَہُمُ الْحَقُّ فَاعْفُواْ وَاصْفَحُواْ حَتَّی یَأْتِیَ اللّہُ بِأَمْرِہِ إِنَّ اللّہَ عَلَی کُلِّ شَیْْء ٍ قَدِیْرٌ                                    (البقرہ: ۱۰۹)

’’اہل کتاب میں سے اکثر لوگ یہ چاہتے ہیں کہ کسی طرح تمہیں ایمان سے پھیرکر پھر کفر کی طرف پلٹالے جائیں۔ اگرچہ حق ان پر ظاہر ہوچکا ہے۔ مگر اپنے نفس کے حسد کی بنا پر تمہارے لئے ان کی یہ خواہش ہے۔‘‘

اس آیت کریمہ میں جہاں اہل کتاب کی قلعی کھولی گئی ہے وہیں اہل ایمان کو ڈھارس بندھائی گئی ہے کہ وہ ان حالات سے کبیدہ خاطر نہ ہوں۔ اللہ ان حالات سے باخبر ہے اور حالات کا رخ موڑنے پر قادر ہے۔ اہل کتاب کو بار بار مختلف پیرایوں میں ان کی ذمہ داری یاد دلائی جارہی ہے اور ان کے دعووں کی حقیقت بتائی جارہی ہے۔

چنانچہ ایک جگہ انہیں خطاب کرتے ہوئے فرمایا:

یَا أَہْلَ الْکِتَابِ لِمَ تَکْفُرُونَ بِآیَاتِ اللّہِ وَأَنتُمْ تَشْہَدُونَo یَا أَہْلَ الْکِتَابِ لِمَ تَلْبِسُونَ الْحَقَّ بِالْبَاطِلِ وَتَکْتُمُونَ الْحَقَّ وَأَنتُمْ تَعْلَمُونَ             (آل عمران:۷۰۔۷۱)

’’اے اہل کتاب، کیوں اللہ کی آیات کا انکار کرتے ہو حالانکہ تم خود ان کا مشاہدہ کررہے ہو۔ اسے اہل کتاب، کیوں حق کو باطل کا رنگ چڑھاکر مشتبہ بناتے ہو؟ کیوں جانتے بوجھتے حق کو چھپاتے ہو؟‘‘

قرآن ان ہی اہل کتاب میں سے بعض نفوس قدسیہ کاذکر تعریف و تحسین کے انداز میں کرتاہے چنانچہ ایک جگہ فرمایا:

  مِّنْ أَہْلِ الْکِتَابِ أُمَّۃٌ قَآئِمَۃٌ یَتْلُونَ آیَاتِ اللّہِ آنَاء  اللَّیْلِ وَہُمْ یَسْجُدُونَ       (آل عمران :۱۱۳)

’’اہل کتاب میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو راہ راست پر قائم ہیں، راتوں کو اللہ کی آیات پڑھتے ہیںاور اس کے آگے سجدہ ریز ہوتے ہیں۔‘‘

نزول قرآن کے وقت درپیش چیلنجز سے نمٹنے کے لئے نبیؐ اور آپؐ کے اصحاب کو کچھ تعلیمات دی گئیں۔ چنانچہ ایک بنیادی تعلیم تو یہ دی گئی کہ :

وَإِذَا حُیِّیْتُم بِتَحِیَّۃٍ فَحَیُّواْ بِأَحْسَنَ مِنْہَا أَوْ رُدُّوہَا (النساء:۸۶)

’’جب کوئی تم سے حسن اخلاق کامظاہرہ کرے تو تم اس سے مزید حسن اخلاق کا مظاہرہ کرو۔ یا کم از کم اتنا تو کرو ہی جتنا اس نے کیا۔‘‘

یہ ایک عمومی اور بنیادی اخلاقی تعلیم ہے:

وَلاَ یَجْرِمَنَّکُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ أَن صَدُّوکُمْ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ أَن تَعْتَدُواْ وَتَعَاوَنُواْ عَلَی الْبرِّ وَالتَّقْوَی وَلاَ تَعَاوَنُواْ عَلَی الإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَاتَّقُواْ اللّہَ إِنَّ اللّہَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ                (المائدہ:۲)

’’ایک گروہ نے جو تمہارے لئے مسجد حرام کاراستہ بند کردیا ہے تو اس پر تمہارا غصہ تمہیں اتنا مشتعل نہ کرے کہ تم بھی ان کے مقابلہ میں مارو اور زیادتیاں کرنے لگو۔ نیکی اور خداترسی کے نام میں سب سے تعاون کرو اور جو گناہ اور زیادتی کے کام ہیں ان میں کسی سے تعاون نہ کرو۔ اللہ سے ڈرو، اس کی سزا بہت سخت ہے۔‘‘

وَلاَ تَسُبُّواْ الَّذِیْنَ یَدْعُونَ مِن دُونِ اللّہِ فَیَسُبُّواْ اللّہَ عَدْواً بِغَیْرِ عِلْمٍ      (الانعام:۱۰۸)

’’اے مسلمانو! یہ لوگ اللہ کے سوا جن کو پکارتے ہیں انہیں گالیاں نہ دو، کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ شرک سے آگے بڑھ کر جہالت کی بنا پراللہ کو گالیاں دینے لگیں۔‘‘

اس کے برعکس ایک بنیادی بات یہ بتائی گئی کہ

وَجَادِلْہُم بِالَّتِی مِن اَحْسَن       (النحل:۱۲۵)  ’’احسن طریقہ سے مجادلہ کرو۔‘‘

جہلا ء سے اگرسابقہ پیش آئے تو مؤمنین کی یہ صفت بتائی گئی ہے کہ ’’جب جاہل ان سے مخاطب ہوتے ہیں تو کہتے ہیں کہ سلام‘‘ اور اہل کتاب کو مشترک اقدار پر اشتراک عمل کی دعوت ان الفاظ میں دی گئی:

’’اے نبی کہو! اے اہلِ کتاب آئو ایک ایسی بات کی طرف جو ہمارے اور تمہارے درمیان یکساں ہے۔ یہ کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی بندگی نہ کریں، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں۔‘‘

قرآن مجید میں جابہ جا اسی طرح کے مضامین مختلف پیرایوں میں بیان ہوئے ہیں۔ اس طرح کی آیات کریمہ کے مطالعہ سے پتہ چلتاہے کہ کس طرح کے حالات اہل حق کو پیش آسکتے ہیں اور ان سے نمٹنے کے لئے انہیں کیا کچھ کرنا چاہئے۔ نبی آخرؐ حضرت محمدؐ نے انہی ہدایات ربانی کی روشنی میںاپنا دعوتی لائحہ عمل خود خالق کائنات کی نگرانی میں مقرر فرمایاتھا، صحابہ کرامؓ نے اسی سے روشنی حاصل کی اور بعد کے ہر دور میں تاقیامت یہی ہدایات روحانی اہلِ حق کے لئے مشعل راہ ثابت ہوتی رہیںگی۔

قرآن مجید نے مشرک والدین کے ساتھ حسن سلوک اور رواداری کاحکم دیا ’وصاحبہما  فی الدنیا معروفاً‘ (لقمان:۱۵) جولوگ علی الاعلان اہلِ حق سے مسلح زورآزمائی نہ کررہے ہوں ان کے سلسلےمیں بھی عدل و قسط اور رواداری کی تلقین کی گئی :

لا یَنْہَاکُمُ اللَّہُ عَنِ الَّذِیْنَ لَمْ یُقَاتِلُوکُمْ فِیْ الدِّیْنِ وَلَمْ یُخْرِجُوکُم مِّن دِیَارِکُمْ أَن تَبَرُّوہُمْ وَتُقْسِطُوا إِلَیْْہِمْ إِنَّ اللَّہَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِیْنَ (الممتحنہ:۱)

’’اللہ تمہیں اس بات سے نہیں روکتا کہ تم اُن لوگوںکے ساتھ نیکی اور انصاف کا برتائو کرو جنھوںنے دین کے معاملہ میں تم سے جنگ نہیں کی ہے اور تمہیں تمہارے گھروں سے نہیں نکالا ہے۔ اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔‘‘

یتیم، مسکین اور قیدی کوئی بھی، ان کے ساتھ حسن سلوک اور خبرگیری، مومن صادق کی صفت بتائی گئی:

 وَیُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلَی حُبِّہِ مِسْکِیْناً وَیَتِیْماً وَأَسِیْراً  (الدھر:۸)

’’اور اللہ کی محبت میں مسکین اور یتیم اور قیدی کو کھانا کھلاتے ہیں۔‘‘

سیرت کے مطالعہ سے پتہ چلتاہے کہ آپؐ نے حلف الفضول کےمعاہدہ میں شرکت کی اور نبوت سے سرفراز ہونے کے بعد بھی آپ اس پر قائم رہے، آپؐ نے صحابہ کرام کو حبشہ کے عیسائی بادشاہ کی پناہ میں بھیجا، آپ نے صلح حدیبیہ کے موقع پر عہدنامہ سے رسول اللہ کالفظ اپنے ہاتھوں سے مٹادیا، آپ نے مشرکین اور اہل کتاب سے معاہدے کئے، راستہ بتانے والے مشرک کی خدمات حاصل کیں اور صحابہ کرام نے غیرمسلموں کے یہاں مزدوری کی۔ اس طرح کے بے شمار واقعات تاریخ کی کتابوں میں بھرے پڑے ہیں۔ امام حمد بن حسن سے روایت ہے کہ جب مکہ مکرمہ میں قحط پڑا تو رسول اللہؐ نے وہاں کے غریبوں میں تقسیم کے لئے مال بھیجا۔ (شرح السیر الکبیر ج ۱ ص ۱۴۴)

حضرت اسماء بنت ابوبکر سے روایت ہے کہ انھوںنے کہاکہ میری والدہ جو مشرک تھیں میرے پاس آئیں، میں نے رسول اللہؐ سے دریافت کیاکہ کیا میں ان کے ساتھ صلہ رحمی کا برتائو کروں تو آپؐ نے انھیںاس کی اجازت دی۔ (تفسیر ابن کثیر ج ۴ ص ۳۴۹)

ابن اسحاق نے روایت نقل کی ہے کہ نجران کا ایک وفد رسول اللہؐ کے پاس آیا جو عیسائی تھا۔ یہ لوگ عصر کے وقت مسجد نبوی میں داخل ہوئے اور جب ان کی نماز کا وقت ہوگیا تو یہ لوگ وہیں نماز کے لئے کھڑے ہوگئے۔ بعض صحابہ نے انہیں روکنا چاہا تو رسول اللہؐ نے انہیں منع کیا اورکہاکہ چھوڑدو۔ چنانچہ وہیں انہوںنے بیت المقدس کی طرف رخ کرکے نماز پڑھی۔ ابن قیم نے اس واقعہ پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھاہے کہ اس واقعہ سے یہ ثابت ہوتاہے کہ غیرمسلم مسلمانوں کی مسجد میں داخل ہوسکتے ہیں اور مسلمان کی موجودگی میںوہیں اپنی نماز بھی پڑھ سکتے ہیں۔ (زادالمعاد ج ۳)

ابوعبید نے سعیدبن مسیب سے روایت کی ہے کہ حضورؐ نے ایک یہودی خاندان کو بطور صدقہ کچھ دیاتھا چنانچہ بعد کے ادوار میں بھی یہی سلسلہ باقی رہا۔ (کتاب الاموال ص ۶۳) بخاری میں حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہؐ نے ایک یہودی کی عیادت کی اور اسے اسلام کی دعوت دی تو اس نے اسلام قبول کرلیا۔ آپؐ وہاں سے یہ کہتے ہوئے نکلے کہ خدا کا شکر ہے جس نے میرے ذریعہ سے اسے جہنم سے بچالیا۔ بخاری ہی کی ایک روایت کے مطابق رسول اللہؐ کے انتقال کے وقت آپؐ کی زرہ ایک یہودی کے پاس رہن تھی۔ یہ رقم آپ نے اپنے اہل و عیال کے خرچ کے لئے لی تھی۔ آپ بہت آسانی سے اپنے صحابہ سے بھی قرض لے سکتے تھے لیکن اس عمل سے امت کی رہنمائی مقصود تھی۔ آپؐ کے پاس سے ایک جنازہ گزرا تو آپ احتراماً کھڑے ہوگئے۔ آپؐ سے کہاگیاکہ یہ ایک یہودی کا جنازہ ہے تو آپؐ نے فرمایا: کیا وہ انسان نہیں تھا؟

آپؐ کے تربیت یافہ صحابہ کرام اور خلفائے راشدین کی زندگی میں بھی ایسے ہی نمونے دیکھنے کو ملتے ہیں۔ چنانچہ حضرت عمرؓ مسلمانوں کے بیت المال سے ایک یہودی خاندان کے لئے مستقل گزارا مقرر کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اللہ فرماتاہے کہ صدقات فقراء و مساکین کے لئے ہیں اور یہ اہل کتاب میں سے ایک مسکین ہے۔ دوران سفر حضرت عمرؓ کاگزر کچھ عیسائی کوڑھیوں کے درمیان سے ہوا تو آپ نے بیت المال سے ان کو مدد فراہم کی۔ حضرت عمرؓ پر جب ایک مجوسی ذمی قاتلانہ حملہ کرکے مہلک زخم لگادیتا ہے تب بھی آپ بسترمرگ پر ذمیوں کے ساتھ حسن سلوک، معاہدہ کی پابندی، ان کی حفاظت کے لئے جنگ اور طاقت سے زیادہ ان پر بوجھ نہ ڈالنے کی وصیت کرتے ہیں۔ حضرت عمرؓ اپنے خادم کو بار بار تاکید کیا کرتے تھے کہ وہ یہودی پڑوسی کے یہاں قربانی کا گوشت پہنچائے،  خادم ایک یہودی پڑوسی پر اتنی توجہ کی وجہ پوچھتا ہے تو آپ فرماتے ہیں کہ رسول اللہؐ نے فرمایاہے کہ جبریل  مجھے پڑوسی کے بارے میں بار بار اتنا متوجہ کرتے رہے کہ مجھے گمان ہونے لگاکہ کہیں آپ پڑوسی کو وراثت میں بھی حصہ دار نہ بنادیں۔ ایک عیسائی خاتون ام حارث کے انتقال پر صحابہ کرام جنازے میں شریک ہوئے۔ (سیرت کے مذکورہ بالا واقعات علامہ یوسف القرضاوی کی کتاب ’’اسلام ، مسلمان اور غیرمسلم‘‘ سے مستفاد ہیں)

قرآن ، حدیث اور سیرت میں مذکور مندرجہ بالا نمونے کے دلائل امت مسلمہ کو درپیش چیلنجز میں رہنمائی کے لئے کافی ہیں۔ اس وقت عالمی منظرنامہ میں جو صورت حال ہے وہ اہل حق کے لئے بڑی تشویش ناک ہے۔ اس پورے منظرنامہ میں اہل حق اپنی کوتاہ بینوں کے سبب عالمی قیادت کے منصب سے محروم ہیں۔ اس وقت سیاہ و سفید کی مالک غیرقومیں ہیں جن کے اشاروں پر ساری انسانیت رقص کررہی ہے وہ اس مقام پر فائز ہیں کہ جس کو وہ حق و درست کہہ دیں وہ حق و درست ہے۔ کیا مجال کہ کوئی اس کےخلاف جاسکے۔ ان کی نظروں میں ان کے اصل حریف و مدمقابل اہل حق ہیں۔  وہی ان کی نگاہوں میں خار کی طرح کھٹکتےہیں۔ انھیں ایک معتدل اور مکمل نظام حیات کی حامل امت کے نظریات سے بیر ہے، ان کی تہذیب، ان کا رہن سہن، ان کے قوانین حیات سبھی کچھ ان کے زیرعتاب ہے۔ وہ یہ چاہتے ہیں کہ اہل حق کے جملہ قوانین حیات ان کے املا کرائے ہوئے ہوں۔ اس مقدمہ کے حصول کے لئے وہ ہر وہ طریقہ اپناتے ہیں جو اہل حق کو مرعوب کرسکے، ان پر ان کی دہشت طاری ہو حتیٰ کہ وہ ان پر عرصۂ حیات تنگ کرنے اور ان کی نسل کشی سے بھی باز نہیں آتے۔

وہ خدا جو خالق کائنات ہے اس نے یہ کائنات ان چند سرپھروں کے حوالے نہیں کردی ہے جو یہ ساری ستم رانیاں کرتے ہیں بلکہ اس نے ایک نظم و حکمت کے تحت انہی میں ایسے افراد رکھے ہیں جو ان لامتناہی ستم رانیوں کے روا رکھنے کے خلاف ہیں، ان میں کسی قدر انسانیت موجود ہے۔ ایسے لوگوں کی اس دنیا میں کثیر تعداد ہے، لیکن متعدد وجوہ سے ان کی حیثیت بہت مؤثر نہیں۔ ان کی اکثریت کے اذہان کو مختلف پروپیگنڈوں کے ذریعہ مسموم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یہ چونکہ اصل حقیقت سے ناواقف ہوتے ہیں اور پروپیگنڈوں سے کسی حد تک متاثر بھی اس لئے بہت کھل کر اہل حق کی حمایت میں نہیں آتے۔ لیکن اس کے باوجود ان کے دلوں میں کسک ضرور ہوتی ہے۔ اس کسکس کے نتیجے میں وہ بسااوقات اصل حقیقت کو تلاش کرتے ہیں اور حق کو پالیتے ہیں یا کم از کم اہل حق پر ڈھائے جانے والے مظالم کے خلاف کسی نہ کسی درجے میں آواز بلند کرتے ہیں۔ ان میں بعض منافق بھی ہوتے ہیں اور یہ منافقین محض دکھاوے کی خاطر ہی سہی مختلف پینتروں کے ذریعہ اہل حق کی خیرخواہی کا دم بھرتے ہیں۔  مکالمے، مباحثے، مراعات کی نہ جانیں کیسی کیسی میز سجاتے ہیں اور درپردہ اور علی الاعلان دونوں طرح سے ستم رانیوں کے سارے حربے بھی روبعمل ہوتے ہیں۔ ایک طرح سے دیکھا جائے تو اہل حق کے ساتھ پیش آنے والے یہ سارے مراحل قدرت کی طرف سے عطاکردہ ان آزمائشی حالات میں ایک زریں موقع فراہم کرتے ہیں، سے فائدہ اٹھاکر جہاں اپنی فکری و عملی اصلاح و احتساب کی ضرورت ہو وہاں اپنی اصلاح کی جائے، اللہ سے قربت بڑھائی جائے، اسی سے مدد طلب کی جائے اور مکالمے کی میز پر بیٹھ کر مکالمے کے موضوع کے رخ کو کمال حکمت سے اپنے حساب منشا موڑ لیاجائے اور بغیر کسی مداہنت کے حق با ت کہی جائے۔

بین المذاہب مکالمے کی مختلف شکلیں ہیں، یہ حکومتی اور بین الاقوامی سطح پر بھی مفید ہے۔ ملکی سطح پر مختلف تنظیمیں بھی یہ کام انجام دے رہی ہیں اور ان سب سے علاحدہ کثیر مذہبی معاشرے میں عہد قدیم سے چلا آرہا بین المذاہب عملی اشتراک سب سے زیادہ مفید، کارآمد اور لائق اتباع ہے۔ جہاں بغیر کسی بھید بھائو کے ہر مذہب کے افراد ایک دوسرے کے خوشی و غم میں شریک ہوا کرتے تھے۔ ہندو عورتیں مساجد کے دروازوں پر اپنے بچوں کو دم کرانے آیا کرتی تھیں، جہاں ہر بزرگ چچا ، کاکا اور دادا ہوا کرتاتھا، جہاں کے بچے پورے معاشرے کی اولاد سمجھے جاتے تھے، یہ اشتراک عمل نصف صدی قبل زیادہ تھا۔ اب بھی خال خال ایسے معاشرے کم از کم ہندوستان کی سطح پر دیکھے جاسکتے ہیں۔ ضرورت ہے کہ بین المذاہب اشتراک عمل کا وہ زریں دور پھر سے واپس لایا جائے۔ حکومتیں اپنا کام کریں، تنظیمیں اپناکام کریں اور انفرادی و اجتماعی سطح پر بین المذاہب مکالمہ اور اشتراک عمل کی فضا کو اس قدر عمومی بنادیا جائے کہ سارا انسانی معاشرہ ایک امن پرور اور امن پسند معاشرہ میں تبدیل ہوجائے۔

اہلِ حق، حاملین قرآن بالفاظ دیگر امت مسلمہ کی یہ ذمہ داری ہے کہ انسانی معاشرہ میں عدل کے قیام کو یقینی بنانے کی کوشش کریں ۔ کیوںکہ انسانوں کی اکثریت نادان ہے، ان تک حق پہنچاہی نہیں۔ وہ عامل کے پروپیگنڈوں کے شکار ہیں۔ امت مسلمہ کے افراد کو حکومتی، تنظیمی انفرادی و اجتماعی سطح پر کمال حکمت و بصیرت کا ثبوت دینا ہوگا۔ یہ کام اتنا آسان بھی نہیں۔ اس کے لئے جہاں فکری لحاظ سے مضبوط ہونا ہوگا وہیں بصیرت بھی پیدا کرنی ہوگی۔ تاکہ امت مسلمہ کے افراد بنیان مرصوص  ہوکر عدل کے قیام کی کوششوں کو موثر بناسکیں اور ہر مرحلہ میں مناظرانہ رویوں سے یکسر پرہیز کرنا ہوگا۔

حالات کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے اہل حق مایو سی کا شکار نہ ہوں کہ انہی امیدیوں سے امید کی کرن پھوٹے گی۔ بس شرط صرف یہ ہے کہ اپنے اندر وہ جوہر پیدا کرنے کی کوشش کریں جو نبی آخر حضرت محمدؐ کے اندر بدرجۂ اتم ائمہ صحابہ کرام اور سلف صالحین میں موجود تھا یہ جوہر وہ تڑپ ہے جو ساری انسانیت کی نجات کے لئے ہو۔ اسی تڑپ کو دیکھتے ہوئے خود خالق کائنات کو آپ پر ترس آگیا اور فرمایا ’’طہٰ ماانزلنا علیک القرآن تشقی‘‘ (طہٰ۱)دوسری جگہ اس سے بھی واضح الفاظ میں فرمایا: ’’لعلک بافع نفسک‘‘  (الکہف۶) انسانیت کو دنیوی امن و سکون اور اخروی نجات سے ہم کنار کرنے کے لئے ایسی ہی تڑپ ہر اہل حق کے اندر ہونی چاہئے اور ذہن ہر طرح کے تعصب اورنسلی ، قومی و لسانی تفاخر سے پاک ہونا چاہئے۔ آج اہلِ حق کاسابقہ جن لوگوں سے ہے ان کی اکثریت نادان ہے۔ بہت تھوڑے افراد وہ ہیں جو ساری انسانیت کے لئے درد سر اور چیلنج بنے ہوئے ہیں۔ ان کا زور توڑنے کے لئے اس اکثریت پر قوت صرف کرنے کی ضرورت ہے جو نادان اور پروپیگنڈے کی شکار ہے، ایسے افراد کے ساتھ مل کر کم از کم مشترکہ اقدار پر اشتراک عمل کو ممکن اور یقینی بنانے کی جدوجہد درکار ہے۔ یہ اشتراک عمل گائوں کی سطح سے لےکر قصبہ،شہر ، ریاست ، ملک اور عالمی سطح پر قائم ہوسکے۔ تاکہ ابن بطوطہ اور البیرونی کے زمانہ کا انسانی معاشرہ پھر سے دیکھنے کوملے۔

جذباتی ایشوز میں اہل حق کا رویہ حکیمانہ ہونا چاہئے۔ اب تک نادان اہل حق کو ایسے ہی چھوٹے چھوٹے جذباتی ایشوز میں الجھایا جاتا رہاہے۔ کبھی اسکارف اور نقاب کے مسئلہ کو ہوا دے کر، اردو کی توہین کی آڑ لے کر، دہشت گردی کا لیبل چسپاں کرکے، کبھی سیرت رسولؐ پر کیچڑ اچھال کر، کبھی داڑھی کو نشانہ بناکر، کبھی قرآن کی تحریف کرکے کبھی وندے ماترم کو مسئلہ بناکر اور کبھی ناانصافیوں کا شکار بناکر اہل حق کی قوتوں کا ضیاع کیاجاتا ہے۔ اور بعض نادان اہل حق ان کے بہکاوے میں آجاتے ہیں۔ اہل حق کو سوچنا چاہئے کہ ان کے بے بصیرت اقدامات سے قوت کے ضیاع کے علاوہ اور کچھ حاصل ہونے والا نہیں۔ اہلِ حق کا یہ شیوہ ہوا کرتا ہے کہ وہ مسائل کی جڑمیں پہنچنے کی کوشش کرتاہے بعض چیزوں کووقتی طور سے کسی مناسب وقت کے لئے نظرانداز کرتاہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ کمال وفاداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک گال پر تھپڑکھاکر دوسرا گال پیش کردے۔ بلکہ کمال حکمت سے حالات کے رخ پر نظر رکھتے ہوئے اپنی حکمت عملی طے کرتا ہے۔ طویل المیعاد منصوبہ بندی کے تحت جب جیسا موقع ہو اپنی مومنانہ فراست کے ساتھ اسے روبعمل لاتا ہے۔ اور بوقت ضرورت اپنی آخری متاع حیات بھی قربان کردینے سے دریغ نہیں کرتا کہ اس کی یہ قربانی نوید صبح کو یقینی بنائے گی۔ لیکن یہ آخری چارۂ کار ہے۔ بس اس کو موسم، وقت اور جگہ کے تقاضوں کے تحت بروقت آبیاری کی ضرورت ہے اور یہ آبیاری بین المذاہب اشتراک عمل کے چشمۂ صافی سے ممکن ہے۔